• This is default featured slide 1 title

    Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by NewBloggerThemes.com.

  • This is default featured slide 2 title

    Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by NewBloggerThemes.com.

  • This is default featured slide 3 title

    Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by NewBloggerThemes.com.

  • This is default featured slide 4 title

    Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by NewBloggerThemes.com.

  • This is default featured slide 5 title

    Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by NewBloggerThemes.com.

اتوار، 13 مارچ، 2022

کیفیات قلبی اور حدیث نبویﷺ

 تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے جس کے طفیل دل میں اخلاص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہو جاتی ہےگناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس کا ثبوت صحابہ کرام کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کے آخری کنارے پر پہنچ چکی تھی۔ الاماشاء اللہ ۔ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کو حیات نو بخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت، خلو ص اور للٰہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔

ایمان کا تعلق کیفیات قلبی یعنی برکات نبوت سے ہے۔ اس لئے زبان کے اقرار کے ساتھ تصدیق قلبی ضروری ہے اور تمام اعمال کا تعلق نیت سے ہے اور نیت فعل ہے دل کا۔ لہٰذا دین کا یہ شعبہ (برکات نبوت) بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہدایت کا دارومدار قلب پر ہےاور عقل کا مدار وفہم بھی قلب پر ہی ہے۔(2)اس لئےقر آن مجید میں جگہ جگہ قلب کو مخاطب کیا گیا ہے۔ صحابہ کرام ان قلبی کیفیات یعنی برکات نبوت کو ہی ایمان کی اصل قرار دیتے ہیں اورایمان کی حلاوت ولذت بھی یہی قلبی کیفیات ہیں۔

کیفیات قلبی اور حدیث نبویﷺ

بخاری شریف میں ابوسفیان اور ہرقل روم کا مکالمہ درج ہے:

 وَسَاَلْتُكَ اَيَرْتَدُّ اَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ اَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَكَرْتَ اَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ  (3)

” میں نے تجھ سے سوال کیا تھاکہ لوگ اس کا دین قبول کر لینے کےبعد اسے برا سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں،تو تم نے جواب دیا کہ نہیں اور ایمان کی بھی یہی حالت ہے ،جب اس کی تازگی قلب میں جم جاتی ہے (تو پھر دور نہیں ہوتی)“۔

اور اسی حقیقت کو قر آن یوں بیان کرتا ہے۔

قا ل اللہ تعالیٰ :  

وَلٰكِنَّ اللهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ(الحجرات۔۷)

”لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب کر دیا“۔

امام ابن تیمیہؒ نےکیفیات ودرجات اور حلاوت ایمانی پر رسالہ ”درجات الیقین“ میں خوبصورت بحث فرمائی ہے،مذکورہ حدیث کے ضمن میں فرماتےہیں:

فالایماناذاباشرالقلب وخالطنہ لایسخطہ القلب بل یحتبہ و یر ضاہ فان لہ من الحلاوۃ فی القلبواللذۃ السّرودو البھجۃ مالایمکنا لتعیر عنہ لمن لم یذقہ والناس متفادتون فی ذوقہ و الفرح و السرور الذّی فی القلب لہ من البشاشۃ والبر ماھو بحبہ واذا خالطت القلب لم یسخطہ (4)

”الغرض جب ایمان دل میں رچ جائے اوراس کی تازگی اس میں سرائت کر جائےتووہ اس سے کبھی نفرت نہیں کرتا بلکہ اسے چاہتا اور پسند کرتا ہے،کیونکہ دل میں ایمان کی اسقدر شیرینی،لذت،سرور اور شادمانی ہوتی ہےکہ جس نے اسے محسوس نہیں کیا اس کے سامنے اس کی تعبیر ناممکن ہے۔لوگ ذوق ایمان کے مدارج میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں،دل میں جو فرحت اور سرور پیدا ہوتا ہے ،اس سے ایک قسم کی شگفتگی اور طاعات پر آمادگی پیدا ہوتی ہے۔جو اس ذوق کے مقدار کے موافق ہوتی ہےاور جب یہ چیز دل میں اچھی طرح رچ جائے تو دل اس سے کبھی بیزار نہیں ہوتا۔“

کیفیات قلبی آنحضرتﷺ کی صحبت سے نصیب ہوتی تھی۔ اصحاب رسولﷺ  نےان کیفیات قلبی کی کمی سے بعض دفعہ اپنے اوپر اندیشہ نفاق کیا تھا، نبی علیہ السلام نے اطمینان دلایا کہ کیفیات قلبی کی یہ کمی بیشی ایمان کو مضر نہیں، جیسا بہ زبانِ صحابہ اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔

2۔حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ. وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَنَّهُ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ يَبْكِي، فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا أَبَا بَكْرٍ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِﷺ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْأَزْوَاجِ وَالضَّيْعَةِ نَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَكَذَلِكَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِﷺ، فَانْطَلَقْنَا فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِﷺ  قَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالضَّيْعَةَ وَنَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ :‏‏‏‏ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى الْحَالِ الَّذِي تَقُومُونَ بِهَا مِنْ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ فِي مَجَالِسِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ، وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً " ، قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.(5)

حنظلہ اسیدی؄ سے روایت ہے (یہ نبی اکرمﷺکے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے) ، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر؄ کے پاس سے روتے ہوئے گزرا تو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے (بات یہ ہے) کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر؄ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہﷺ کے پاس، چنانچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ ﷺنے مجھے دیکھا تو فرمایا: ”حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم جنت اور دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ؄ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے۔“ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

اور یہ الفاظ بھی حدیث میں ملتے ہیں:

3۔عن انس:قال اصحاب النبی ﷺ یا رسول اللہ انا کنا عندک راینا ی انفسنا ما نحب ،و اذا راجعنا الی اھلینا فخالطنا ھم انکرنا انفسنا فقال النبی (لو تدومون علی تکونون عندی فی الخلاء لصافحتکم الملائ کۃ حتی تظلکم با جنحتھا عیانا و لکن ساعۃ و سعۃ)۔

”سید انس ؄ کہتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺنے کہا:اے اللہ کے رسول ! جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ میں پسندیدہ صفات نظر آتی ہیں ،لیکن جب ہم اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹتے ہیں اور ان میں مل جل کر رہتے ہیں تو خود کوگنہگار سمجھتے ہیں ۔نبی ﷺ نے فرمایا ”اگر تم پنی خلوتوں میں اسی حالت پر قائم رہو جس پر میرے ہاں ہوتے ہو ،تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں اور وہ تم پر اپنے پروں سے عیاناً سایہ کریں (دراصل حالات بدلتے رہتے ہیں) کبھی یہ اور کبھی وہ“۔(6)

4۔عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ :‏‏‏‏ " لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَأَظَلَّتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا 

”سید حنظلہ ؄ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اگر اسی حالت پر برقرار رہو جس پر میرے پاس ہوتے ہو تو فرشتے تم پر اپنے پروں سے سایہ کریں گے۔“

انھی معانی میں سید نا انس ؄ سے ایک طویل روایت جلد دوم (سلسلہ حدیث صحیحہ اردو مترجم)سوم صفحہ240پر موجود ہے، میں صرف ترجمہ نقل کیے دیتا ہوں:


Share:

برکاتِ نبوت

انبیاء  سے جب قلبی تعلق بنتا ہے تو قلب اطہر پیغمبر سے فیض پانے والے کے قلب پر وہ کیفیت آ جاتی ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی، بیان نہیں کی جا سکتی، جس کے لئے کوئی الفاظ نہیں ملتے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے، کیونکہ انبیاء  بندے کو رب العٰلمین سے اس طرح آشنا کرواتے ہیں کہ ان کے فیوضات و تعلیمات میں صرف الفاظ ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ کیفیات بھی ہوتی ہیں جو بندے کو اللہ کے قریب کر دیتی ہیں۔ وہ اللہ کونہیں دیکھ سکتا لیکن دیکھتا ہے، یعنی جس کسی بھی چیز کو دیکھ کر مانا جائے ویسے ہی وہ اللہ کو بغیر دیکھے مانتا ہے کہ جیسے اللہ کو دیکھ رہا ہے (1) یہ کیفیات قلبی برکات نبوت ﷺکہلاتی ہیں۔ دین مبین کا یہ شعبہ تصوف وسلوک، احسان، اسرارِ شریعت، طریقت،روحانیت وغیرہ کی اصطلاحات سے بھی موسوم کیا جاتا ہےاور ہمارےہاں(پاک وہند) عرف عام میں اس کو پیری مریدی بھی کہا جاتا ہے۔

”  يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهٖ“ دعوت الی اللہ ہے ” وَيُزَكِّيْهِ“ برکات نبوت ہے اور ”وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ“ تعلیمات نبوت ہے۔اب یہ قر آن نے علیحدہ سے یزکیھم کا ذکر کیا ہے ۔یعنی آپﷺ تزکیہ فرماتے تھے،یہ تزکیہ کیا ہے۔یہی ہمارا موضوع ہےاور اس شعبے کو آج تصوف و احسان یا طریقت وغیرہ کہا جاتا ہے۔

Share:

جمعہ، 11 مارچ، 2022

قبرستان میں جانا

اپنے آباو اجداد کی قبروں پر جانا انکے لئے دعا مغفرت کرنا اور انکے دستوں کا احترام کرنا ان سے ملنا ایک شرعی حکم ہے اپنی اولادوں کو اس کی تربیت کرو۔
اپنے آباو اجداد کی قبروں پر جانا انکے لئے دعا مغفرت کرنا اور انکے دستوں کا احترام کرنا ان سے ملنا ایک شرعی حکم ہے اپنی اولادوں کو اس کی تربیت کرو۔
اپنے آباو اجداد کی قبروں پر جانا انکے لئے دعا مغفرت کرنا اور انکے دستوں کا احترام کرنا ان سے ملنا ایک شرعی حکم ہے اپنی اولادوں کو اس کی تربیت کرو۔اپنے آباو اجداد کی قبروں پر جانا انکے لئے دعا مغفرت کرنا اور انکے دستوں کا احترام کرنا ان سے ملنا ایک شرعی حکم ہے اپنی اولادوں کو اس کی تربیت کرو۔اپنے آباو اجداد کی قبروں پر جانا انکے لئے دعا مغفرت کرنا اور انکے دستوں کا احترام کرنا ان سے ملنا ایک شرعی حکم ہے اپنی اولادوں کو اس کی تربیت کرو۔اپنے آباو اجداد کی قبروں پر جانا انکے لئے دعا مغفرت کرنا اور انکے دستوں کا احترام کرنا ان سے ملنا ایک شرعی حکم ہے اپنی اولادوں کو اس کی تربیت کرو۔اپنے آباو اجداد کی قبروں پر جانا انکے لئے دعا مغفرت کرنا اور انکے دستوں کا احترام کرنا ان سے ملنا ایک شرعی حکم ہے اپنی اولادوں کو اس کی تربیت کرو۔اپنے آباو اجداد کی قبروں پر جانا انکے لئے دعا مغفرت کرنا اور انکے دستوں کا احترام کرنا ان سے ملنا ایک شرعی حکم ہے اپنی اولادوں کو اس کی تربیت کرو۔

Share:

جمعہ، 25 فروری، 2022

وائس بلاگ کیا ہے اور کیسے بنتا ہے؟:

وائس بلاگ کیا ہے اور کیسے بنتا ہے؟:

اگر آ پ صحیح معنوں میں اپنے بلاگ کے قارئین کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کی آواز آپ کے لیے سب سے موزوں ذریعہ ہے، کیوں کہ جو لوگ آپ کو پڑھتے ہیں وہ آپ کو سننا بھی چاہتے ہیں۔ اور آپ کی آواز یقیناً آپ کے قارئین سے زیادہ آپ کے سامعین کی تعداد بڑھا دے گی۔ یہ کرنا کچھ مشکل کا م نہیں۔ ایسی بہت سی ویب سائٹس ہیں جو آپ کو نہ صرف وائس بلاگ نویسی کی سہولت دیتی ہیں بل کہ ان میں سے بہت سی ویب سائٹس تو آپ کو آپ کا اپنا ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں۔

mixlr.com کے نام سے ایک ایسی ویب سائٹ موجود ہے جو اپنے صارفین کو اعلیٰ معیار کی اسٹیریو آواز کی فراہمی یقینی بناتی ہے۔ اس ویب سائٹ کے ذریعے آپ اپنی ریکارڈ کی گئی فائل کو وقفے کے بعد اب لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔ اس کی مدد سے آپ اپنا ایک مرکز بناسکتے ہیں۔ اپنے سامعین کے ساتھ بات کرسکتے ہیں اور فوری طور پر اپنے سامعین کا تاثر جان سکتے ہیں۔ ایک بہترین اور بالکل مفت وائس بلاگ بنانے کے لیے چند درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔

٭ سب سے پہلے اپنے ویب براؤزر کے ایڈریس بار میں www.mixlr.com لکھیے۔ ونڈو کھلتے ہی آپ Login اور Signin کا Optionدیکھیں گے۔ آپ Sign Up کے Option پر کلک کیجیے۔ یہاں یہ آپ کو دو اقسام کی سہولیات فراہم کرتا ہے، اگر آپ کے پاس Facebookکا اکاؤنٹ موجود ہے، تو فقط Sign Up with Facebookکے Option پر کلک کردیجیے، آپ کا اکاؤنٹ mixler  پر خود ہی بن جائے گا۔ اگر نہیں، تو دیے گئے فارم کو مکمل کیجیے اور اپنا اکاؤنٹ بنائیے۔


Share:

بلاگ لکھنے سے متعلق کن چیزوںکا جاننا ضروری ہے

 بلاگ لکھنے سے متعلق کن چیزوںکا جاننا ضروری ہے

٭بلاگنگ شروع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ جو دیکھتے ہیں، جو محسوس کرتے ہیں اسے سادہ الفاظ کی شکل دیں اور بلاگ لکھ دیں۔ فرض کریں آپ نے کہیں کو حادثہ دیکھا یا کوئی منفرد چیز دیکھی اب آپ اس حادثہ یا منفرد چیز سے کیا نتیجہ نکالتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ اس سے آپ نے اور دوسروں نے کیا اثر لیا وغیرہ وغیرہ سوچیں۔

٭عام طور پر بلاگ 800 سے 1000 الفاظ کے درمیان ہونا چاہیے۔ اگر بلاگ نویس لکھے گئے مواد سے متعلق کسی چیز کا حوالہ دینا چاہے، تو وہ حوالہ ٹیکسٹ کے اندر ہائپر لنک کی مدد سے دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

٭بلاگ کے عنوان کی بڑی اہمیت ہے کیوںکہ کسی بھی تحریر کے سب سے پہلے جس حصے پر نظر پڑتی ہے وہ عنوان ہے پھر آغاز کے تین چار جملے ہیں۔ یہ اگر دل چسپ ہوں تو قاری کی دل چسپی بڑھتی ہے اور نظر خودبخود تحریر پر پھسلتی جاتی ہے۔ عنوان حتیٰ المکان مختصر اور معنی خیز ہونا چاہیے۔

٭جو لوگ کسی مخصوص شعبے سے وابستہ ہیں وہ کوشش کریں کہ زیادہ تر اپنے شعبے سے متعلق لکھیں کیوںکہ اس سے آپ کی تحریر جاندار بھی ہوجائے گی اور آپ اپنا مافی الضمیر بھی خوب اچھی طرح بیان کر سکیں گے۔

٭آغاز کے کچھ جملے بہت اہم ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں یہ تحریر کا حساس ترین حصہ ہے۔ یہی چند جملے ہیڈ لائن اور ایگریگیٹر پر بھی ابھرتے ہیں۔ یہاں اگر آپ نے قاری کو پکڑ لیا تو پکڑ لیا۔

٭بلاگ کے لیے جس قدر ممکن ہو ایسے موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے جو حقیقت سے قریب تر ہو۔

٭من گھڑت کہانیوں کی بجائے عام زندگی میں ہونے والے تجربات پر لکھیں۔ اس سے ایک تو آپ کے تجربات اور تجزیے دوسرے لوگوں تک پہنچیں گے اور جب قارئین تبصرے یا رائے دیں گے تو آپ کو تصویر کے کئی دوسرے رخ نظر آئیں گے، جس سے آپ کی سوچ مزید پختہ ہو گی۔

٭ بلاگ حالاتِ حاضرہ، سماجی مسائل، سیاسی واقعے و پیش رفت، اور ملکی و غیر ملکی حالات پر لکھے جائیں۔ اس کے علاوہ بلاگ کسی تاریخی واقعے پر بھی لکھے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مضبوط حوالے دینا ہر گز نہ بھولیں۔

Share:

بلاگ اور ویب سائیٹ کا فرق

 بلاگ اور ویب سائیٹ کا فرق

اکثر لوگ بلاگ اور ویب سائیٹ کو ایک ہی شئے کے دو نام سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں تیکنیکی اعتبار سے ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتے ہیں، ایک ویب سائٹ در اصل آن لائن موجود مختلف ویب پیجز کا ایک مجموعہ ہوتا ہے یعنی ویب سائٹ ایک عمومی اصطلاح ہے جس سے مراد انٹرنیٹ پر موجود کسی بھی ڈومین پر ویب پیجز کا کوئی بھی مجموعہ ہوسکتا ہے۔ بظاہر بلاگ بھی ایک طرح سے ویب سائٹ کا ہی ایک حصہ ہوتا ہے جس پر کسی فرد کی جانب سے پابندی کے ساتھ خیالات، احساسات، واقعات وغیرہ کو متن یا متن کے ساتھ ساتھ سمعی و بصری صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

بلاگ نویس اپنے خیالات کو بلاگ کے ذریعے انٹرنیٹ پر اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر اس بلاگ کو پڑھنے والے اس پر رائے زنی کرتے ہیں اور مشوروں سے بھی نوازتے ہیں، جس طرح ایک بلاگ نویس اپنے افکار کو متن کے ذریعے پیش کرسکتا ہے۔ اسی طرح کسی واقعے کو ویڈیو اور تصاویر کے ذریعے بھی دکھا سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنی ریکارڈیڈ آوا ز میں اس پر اپنا تبصرہ بھی نیٹ صارفین کے گوش گزار کرسکتا ہے۔ لیکن ویب سائیٹ اور بلاگ کی روایتی ساخت الگ الگ ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ہم بلاگ کو ویب سائٹ سے الگ تصور کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ویب سائٹ کی کچھ نشانیاں درجِ ذیل ہیں:

Share:

بلاگ کیا ہے؟

 بلاگ کیا ہے؟

لفظ بلاگ در اصل ویب لاگ کا مخفّف ہے، جو انگریزی کے دو لفظوں web and log سے مل کر بنا ہے جو ایسی ویب سائٹس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں معلومات کو تاریخ وار ترتیب سے رکھا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ آن لائن کوئی لاگ بُک یا ڈائری مرتّب کر تے ہیں یا انٹرنیٹ کے ذریعے کسی ویب سائٹ پر لاگ اِن ہو کر کچھ لکھتے ہیں تو اس سارے عمل کو انٹرنیٹ کی جدید رائج اصطلاح میں ’’بلاگ‘‘ بنانا یا بلاگ نویسی قرار دے دیا جاتاہے۔

ویب لاگ (weblog) کا لفظ جان بارگر (Jorn Barger) نے پہلی دفعہ1997میں استعمال کیا تھا، اس کے بعد لفظ بلاگ کو پیٹر مرہولز (Peter Merholz) نے مزاحیہ انداز میں لفظ ’’ویب لاگ‘‘ کو توڑ کر we blog کے طور پر استعمال کیا اور یہیں سے پھر لفظ ’’بلاگ‘‘ مشہور ہوگیا۔ اب آپ کسی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر بلاگ لکھتے ہیں؟ کِن موضوعات پر لکھتے ہیں؟ یہ آپ کی مرضی پر ہی منحصر ہے کیوںکہ عام خیال یہ ہی ہے کہ بلاگ کسی بھی موضوع پر تحریر کیا جاسکتا ہے۔ مگر زیادہ تر بلاگ نویس، اپنے بلاگ عموماً سماجی اور سیاسی موضوعات پر تحریر کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بلاگ کو جدیدطرز کی آن لائن ڈائری بھی کہا جاتا ہے، جس کو بلاگ نویس باقاعدگی سے پبلک میں شیئر کرتے رہتے ہیں، تاکہ ان کے جذبات، احساسات اور ردّعمل ان کے منتخب کردہ قارئین تک پہنچیں۔ پرانے زمانے میں جب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا کوئی وجود نہیں تھا، اکثر لوگ اپنی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ مگر ڈائری اکثر دن بھر کی نجی مصروفیات کا احاطہ کرتی تھی۔ اس میں سماجی یا سیاسی موضوعات پر اپنے جذبات کی ترجمانی اکثر ناپید ہوتی تھی اور اِس قسم کی ڈائریاں عموماً مرنے کے بعد کبھی کبھار کتابی شکل میں بھی سامنے آجایا کرتی تھیں۔ ذاتی ڈائری اور بلاگ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ذاتی ڈائری آپ تک یا چند ایک قریبی دوستوں تک محدود ہوتی ہے، جب کہ بلاگ پوری دنیا کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہوتا ہے۔

Share:

Recent Posts

Unordered List

  • Lorem ipsum dolor sit amet, consectetuer adipiscing elit.
  • Aliquam tincidunt mauris eu risus.
  • Vestibulum auctor dapibus neque.

Pages

Theme Support

Need our help to upload or customize this blogger template? Contact me with details about the theme customization you need.