تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے جس کے طفیل دل میں اخلاص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہو جاتی ہےگناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس کا ثبوت صحابہ کرام کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کے آخری کنارے پر پہنچ چکی تھی۔ الاماشاء اللہ ۔ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کو حیات نو بخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت، خلو ص اور للٰہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔
ایمان کا تعلق کیفیات قلبی یعنی برکات نبوت سے ہے۔ اس لئے زبان کے اقرار کے ساتھ تصدیق قلبی ضروری ہے اور تمام اعمال کا تعلق نیت سے ہے اور نیت فعل ہے دل کا۔ لہٰذا دین کا یہ شعبہ (برکات نبوت) بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہدایت کا دارومدار قلب پر ہےاور عقل کا مدار وفہم بھی قلب پر ہی ہے۔(2)اس لئےقر آن مجید میں جگہ جگہ قلب کو مخاطب کیا گیا ہے۔ صحابہ کرام ان قلبی کیفیات یعنی برکات نبوت کو ہی ایمان کی اصل قرار دیتے ہیں اورایمان کی حلاوت ولذت بھی یہی قلبی کیفیات ہیں۔
کیفیات قلبی اور حدیث نبویﷺ
1۔ بخاری شریف میں ابوسفیان اور ہرقل روم کا مکالمہ درج ہے:
وَسَاَلْتُكَ اَيَرْتَدُّ اَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ اَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَكَرْتَ اَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ (3)
” میں نے تجھ سے سوال کیا تھاکہ لوگ اس کا دین قبول کر لینے کےبعد اسے برا سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں،تو تم نے جواب دیا کہ نہیں اور ایمان کی بھی یہی حالت ہے ،جب اس کی تازگی قلب میں جم جاتی ہے (تو پھر دور نہیں ہوتی)“۔
اور اسی حقیقت کو قر آن یوں بیان کرتا ہے۔
قا ل اللہ تعالیٰ :
وَلٰكِنَّ اللهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ(الحجرات۔۷)
”لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب کر دیا“۔
امام ابن تیمیہؒ نےکیفیات ودرجات اور حلاوت ایمانی پر رسالہ ”درجات الیقین“ میں خوبصورت بحث فرمائی ہے،مذکورہ حدیث کے ضمن میں فرماتےہیں:
فالایماناذاباشرالقلب وخالطنہ لایسخطہ القلب بل یحتبہ و یر ضاہ فان لہ من الحلاوۃ فی القلبواللذۃ السّرودو البھجۃ مالایمکنا لتعیر عنہ لمن لم یذقہ والناس متفادتون فی ذوقہ و الفرح و السرور الذّی فی القلب لہ من البشاشۃ والبر ماھو بحبہ واذا خالطت القلب لم یسخطہ (4)
”الغرض جب ایمان دل میں رچ جائے اوراس کی تازگی اس میں سرائت کر جائےتووہ اس سے کبھی نفرت نہیں کرتا بلکہ اسے چاہتا اور پسند کرتا ہے،کیونکہ دل میں ایمان کی اسقدر شیرینی،لذت،سرور اور شادمانی ہوتی ہےکہ جس نے اسے محسوس نہیں کیا اس کے سامنے اس کی تعبیر ناممکن ہے۔لوگ ذوق ایمان کے مدارج میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں،دل میں جو فرحت اور سرور پیدا ہوتا ہے ،اس سے ایک قسم کی شگفتگی اور طاعات پر آمادگی پیدا ہوتی ہے۔جو اس ذوق کے مقدار کے موافق ہوتی ہےاور جب یہ چیز دل میں اچھی طرح رچ جائے تو دل اس سے کبھی بیزار نہیں ہوتا۔“
کیفیات قلبی آنحضرتﷺ کی صحبت سے نصیب ہوتی تھی۔ اصحاب رسولﷺ نےان کیفیات قلبی کی کمی سے بعض دفعہ اپنے اوپر اندیشہ نفاق کیا تھا، نبی علیہ السلام نے اطمینان دلایا کہ کیفیات قلبی کی یہ کمی بیشی ایمان کو مضر نہیں، جیسا بہ زبانِ صحابہ اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔
2۔حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ. وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ يَبْكِي، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا أَبَا بَكْرٍ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِﷺ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْأَزْوَاجِ وَالضَّيْعَةِ نَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ: فَوَاللَّهِ إِنَّا لَكَذَلِكَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِﷺ، فَانْطَلَقْنَا فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِﷺ قَالَ: مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالضَّيْعَةَ وَنَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ : لَوْ تَدُومُونَ عَلَى الْحَالِ الَّذِي تَقُومُونَ بِهَا مِنْ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ فِي مَجَالِسِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ، وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً " ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.(5)
حنظلہ اسیدی سے روایت ہے (یہ نبی اکرمﷺکے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے) ، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر کے پاس سے روتے ہوئے گزرا تو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے (بات یہ ہے) کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہﷺ کے پاس، چنانچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ ﷺنے مجھے دیکھا تو فرمایا: ”حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم جنت اور دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے۔“ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اور یہ الفاظ بھی حدیث میں ملتے ہیں:
3۔عن انس:قال اصحاب النبی ﷺ یا رسول اللہ انا کنا عندک راینا ی انفسنا ما نحب ،و اذا راجعنا الی اھلینا فخالطنا ھم انکرنا انفسنا فقال النبی (لو تدومون علی تکونون عندی فی الخلاء لصافحتکم الملائ کۃ حتی تظلکم با جنحتھا عیانا و لکن ساعۃ و سعۃ)۔
”سید انس کہتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺنے کہا:اے اللہ کے رسول ! جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ میں پسندیدہ صفات نظر آتی ہیں ،لیکن جب ہم اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹتے ہیں اور ان میں مل جل کر رہتے ہیں تو خود کوگنہگار سمجھتے ہیں ۔نبی ﷺ نے فرمایا ”اگر تم پنی خلوتوں میں اسی حالت پر قائم رہو جس پر میرے ہاں ہوتے ہو ،تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں اور وہ تم پر اپنے پروں سے عیاناً سایہ کریں (دراصل حالات بدلتے رہتے ہیں) کبھی یہ اور کبھی وہ“۔(6)
4۔عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ : " لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَأَظَلَّتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا
”سید حنظلہ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اگر اسی حالت پر برقرار رہو جس پر میرے پاس ہوتے ہو تو فرشتے تم پر اپنے پروں سے سایہ کریں گے۔“
انھی معانی میں سید نا انس سے ایک طویل روایت جلد دوم (سلسلہ حدیث صحیحہ اردو مترجم)سوم صفحہ240پر موجود ہے، میں صرف ترجمہ نقل کیے دیتا ہوں: